قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
جس دن سے بارش کے پانی کے فائدے اور کمالات عبقری میں شائع ہونا شروع ہوئے ہیں شاید مخلوق خدا انتظار میں تھی یا انہیں کوئی راستہ اور عنوان چاہیے تھا‘ مجھے بے شمار لوگوں نے اپنے تجربات بتانا شروع کیے‘ ان تجربات میں کچھ تجربات میں چاہتا ہوں امانت سمجھ کر آپ تک پہنچاؤں۔
بھگندر اور فسچولہ سے نجات:ایک صاحب کہنے لگے: مجھے ناسور کی بیماری تھی جس کو بھگندر اور فسچولہ بھی کہتے ہیں۔ (پاخانہ کی جگہ کے ساتھ ایک ناسور جس کا بار بار آپریشن کروانے کے بعد بھی صحت بہت کم لوگوں کو ملتی ہے) کہنے لگے: میں نے دو آپریشن بھی کروا لیے‘ بہت زیادہ مہنگی اور قیمتی ادویات کھاڈالیں‘ کسی دوائی نے مجھ پر اثر نہ کیا‘ کرتے کرتے ایک دن میں شادی کی تقریب میں جھنگ گیا ہوا تھا‘ وہاں میرے اٹھنے بیٹھنےکی تکلیف کو دیکھ کر ایک بوڑھے رشتہ دار نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ’’ یہ تکلیف ہے‘‘ ہنس کر کہنے لگے کہ میں بتاؤں گا آپ کو سمجھ نہیں آئےگی؟ کرلیں گے فائدہ ہوگا اور فائدے کے بعد آپ بھی کسی کو بتائیں گے ان کو بھی سمجھ نہیں آئے گی۔ پھر کہنے لگے: ایسا کریں آپ صرف اور صرف بارش کا پانی پئیں اور بارش کے پانی کو زخم کی جگہ پر دن میںچند بار ایک چلو پانی بھر کر لگائیں یعنی اس حصہ کو دھو دیا کریں اور مسلسل بارش کا پانی پئیں اور اس ان پڑھ بابے نے جو اگلی بات کہی وہ بہت حیرت انگیز تھی۔ کہنے لگے: جب بھی بارش کا پانی پئیں‘ اس نیت اس جذبے سے پئیں یااللہ یہ آسمان سے اترا ہے‘ آسمان پر تیری رحمت ہوتی ہے‘ یقیناً اس قطرے کےساتھ تیری رحمت لگی ہوگی‘ اپنی رحمت کےصدقے اس پانی میں شفاء دے دے اور اس شفاء کے اندرمیری بیماری میں شفاء ڈال دے۔ کہنے لگے میں نے ان کی بات سنی چونکہ ادویات اور آپریشن سے مجبور ہوچکا تھا اور کسی سانس اور کسی پل مجھے سکون نہیں مل رہا تھا میں نے فوراً اس کی بات مانی‘ بارش کاپانی کسی طرح مجھے کہیں سے مل گیا اور آئندہ جمع کرنے کیلئے میں نے پورا عزم کیا۔ میں نے بارش کا پانی پینا اورلگانا شروع کردیا اور کرتے کرتے یہاں تک کہ میں کچھ ہی ماہ میں بالکل صحت مند اور تندرست ہوگیا اور مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ مجھے کوئی تکلیف ہے بھی۔
ذہنی دباؤ‘ ٹینشن‘ اعصابی کھچاؤ اور بے چینی ختم:اگلا واقعہ ایک صاحب نےسنایا: کہنے لگے: میں ذہنی ٹینشن‘ اعصابی کھچاؤ‘ ذہنی دباؤ اور طبیعت کی گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار تھا‘ میں مری کے ایک گاؤں میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا‘ ان کی سادہ غذا تھی لیکن میرے جی میں آیا کہ میں پانی پیئوں‘ بہت میٹھا ٹھنڈا پانی‘ میں وہاں پانی پیتا رہا میں سات دن وہاں رہا‘ مجھے اتنا فائدہ ہوا کہ میں خود گمان نہ کرسکا کہ آج تک مجھے کبھی اتنا فائدہ ہوگا بھی؟ مجھے حیرت ہوئی میرا خیال تھا کہ شاید ماحول کے بدلنے سے مجھے فائدہ ہوا یقیناً اس کا اثر بھی ہوتا ہے‘ پھر اگلا خیال کہ شاید کسی سادہ غذاکی وجہ سے واقعی اس کا اثر ہوتا ہے‘ لیکن پھر خیال آیا کہ اتنا فائدہ کہ جس سے میرے دل کو سکون ملا‘ طبیعت کو چین ملا اور ذہنی آسودگی ملی اور اندر کی ٹینشن‘ گھبراہٹ‘ اکتاہٹ اور بے چینی مجھے جو اندرہی اندر کھائے جارہی تھی اس سے مجھے خلاصی ملی‘ آخر یہ کیا ہے؟ میں نے اس کا تذکرہ اپنے میزبان سے کیا۔ کہنے لگے دراصل ہمارے ہاں پہلےبہت چشمے تھے اور چونکہ یہاں سارے علاقہ میں انگریز سے پہلے سکھوں کا دور دورا تھا‘ سکھوں نے چشموں کو بہت محفوظ کیا اور سکھ حکومت نے چشموں کی بہت قدردانی کی‘ ان کو مضبوط کیا‘ پکا کیا ان کے ڈھکنے بنوائے ان کی حفاظت کی‘ بس ہمارے گناہ ہیںکہ چشمے خشک ہوگئے‘ بہت تھوڑےچشمےباقی ہیں‘ ہمارے یہاں بارش بہت ہوتی ہے‘ ہم بارش کا پانی محفوظ کرلیتے ہیں‘ گھر میں نیچے بہت بڑی بڑی ٹنکیاں بنائی ہوئی ہیں۔ اسی پانی کو کپڑے سے چھان کر پیتے بھی ہیں‘ استعمال بھی کرتےہیں دراصل آپ کو جو پانی دیا ہے یہ بارش کا پانی ہے اور پھر اس پہاڑی نے اپنا مشاہدہ بتایا کہنے لگا: ہمارے بڑےبتاتے تھے کہ بارش کا پانی اللہ کی رحمت اور دعا کے ساتھ آتا ہے اور اس کو صرف وہی لوگ پی سکیں گے جن کے ساتھ رحمت اور دعا ہوگی یا جنہیں رحمت اوردعا چھوئے گی اور کوئی اس کو نہ پی سکے گا اور نہ اور کوئی اس کو استعمال کرسکےگا۔ کیونکہ رحمت کا مستحق ہر فرد نہیں ہوتا‘ یہ صرف قسمت والے کو ملتی ہے اور نصیب والے کو ملتی ہے اور پھر ہمارے بڑے یہ بات کہتے تھے کہ بارش میں رحمت اس دن آئی تھی جس دن حضور رحمۃ اللعالمینﷺ اس کائنات میں تشریف لائے تھے اور حضور ﷺ کی تشریف آوری نے بارش کے پانی کو رحمت بنادیا‘ بارشیں تو اس سے پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن اس میں رحمت شفاء اور برکت مدینے والے ﷺ کی آمد سے ہوئی۔ بارش کے پانی اور جَو کے دلیہ سے جادو ختم:وہ پہاڑی مزید بتانےلگا ہمارے ہاں ایک بات مشہور ہے کہ پاگل کو اگر ستر دن تک بارش کا پانی پلائیں اور جَو کا دلیہ کھلائیں نہ کچھ اورکھلائیں نہ پلائیں تو پاگل تندرست ہوجائے گا اس کا پاگل پن ختم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی ہمارے ہاں مشہور ہے کہ اگر کوئی ایسا فرد جو کسی لاعلاج بیماری، لاعلاج جادو یا کالے جنات کی گرفت میں ہووہ ستر دن بہت زیادہ بارش کا پانی پئے اپنی ضرورت سےبھی زیادہ پئے اوردن رات صرف جَو کا دلیہ کھائے ‘ اس کا جادو بھی ٹوٹ جائے گا اس کی بندش بھی ختم ہوجائے گی اس کو صحت وتندرستی بھی ملے گی اورجسمانی بیماریاں چاہے وہ جتنی بھی لاعلاج کیوں نہ ہوں سب ختم ہوجائیں گی۔
میں اس پہاڑی کی باتیں سن کرحیران ہوا کہ بارش تو ہمارے ہاں بھی ہوتی ہے اور لاہور میں بارش کے موسم میںبہت زیادہ ہوتی ہے اس کے علاوہ بھی بارش ہوتی رہتی ہے ہم نے تو کبھی بارش کے پانی کی قدر ہی نہیں کی۔ بلکہ غریب ڈرتے ہیں کہ ہمارے گھر ڈوب نہ جائیں‘ گر نہ جائیں اور امیر خوش ہوتے ہیں چلو ہمارے گھر دھل جائیں گے اور ہمارے باغیچے پھل پھول جائیں گے لیکن جو بارش میں شفاء میں نے سنی ‘وہ کبھی نہ سنی‘ نہ سوچی‘ نہ پڑھی‘ نہ دیکھی‘ نہ گمان خیال میں‘ نہ احساس ادراک میں۔ وہ صاحب کہنے لگے میرے دل میں خیال آیا کہ میں کچھ دن مزید یہاں رہوں کیونکہ ان سے میرا تعلق بہت گہرا تھا مزید رہنا ان کی خوشی کا ذریعہ تھا نہ کہ ان کی پریشانی کا۔ بس میں نے وہاں اپنےآپ کو بارش کے پانی کے حوالےکردیا‘ جو ایک کمی میرے اندر جَو کے دلیہ کی تھی میں نے اس جَو کے دلیہ کو کھایا اور سب کھانا سب کچھ چھوڑ دیا بس دن رات میرا کھانا جَو کا دلیہ اور پینا بارش کا پانی تھا اور بارش کا پانی میں بہت زیادہ پیتا تھا مجھے پیشاب زیادہ ا ٓنے لگامیں گھبرایا نہیں‘ میں دو ہفتے مزید رہا میں جب مری گیا تھا میرے ساتھ ایک چھوٹا بیگ تھا جس میں طرح طرح کی رنگ برنگی دوائیں انجکشن، انسولین اور نامعلوم کتنی ایمرجنسی کی ادویات تھیں کہ وہاں گاؤں اور دیہات ہے اگر اچانک کچھ ہوگیا تو؟ اس کیلئے دوائی رکھ لی‘ اچانک اگر دل کا مرض ہوگیا تو اس کیلئے یہ دل کی دوا ہے اگر کوئی چوٹ لگ گئی تو یہ چوٹ کی دوا ہے نامعلوم مزید کتنی اضافی ادویات اپنے ساتھ رکھ لیں۔ لیکن حالات نے بارش کے پانی اور جَو کے دلیہ نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ مجھے کسی دوا کی اب ضرورت نہیں ہے اور میں نہایت صحت مند ہوں اور تندرست ہوں‘ میری طاقت‘ میری صحت‘ میری تندرستی‘ شعور احساس اورادراک میرا ساتھ دےرہا میں محسوس کررہا تھا کہ میں اٹھاون سال کی عمر میں پھر سےاٹھارہ سال کی عمر میں چلا گیا ہوں۔ میرے پٹھے، اعصاب، دل دماغ، نیند اور زندگی کاچین بارش کے پانی نے لوٹا دیا۔ اےکاش! میں پہلے اور اس سے پہلے بارش کےپانی سے فیض یاب ہوجاتا۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں